"ڈاکیہ ڈاک لایا " ایک آزاد نظم:
عجب ڈاکیہ ہے !
عجب ایک گمنام چٹھی سنبھالے ،
سڑک در سڑک مثل- پُرزاۓ کاغذ سدا گھومتا ہے ،
یہ چٹھی کے جس پہ اتا نہ پتہ ہے،
نہ مضمون کوئی ، نہ اسم - مبارک ،
کسے کھوجتا ہے؟
فرستادہ کس کا ؟ ہے کس کا ملازم ؟
جہنم سے آیا فرشتہ ہے کوئی ؟
یا جنات کا یہ کوئی ماجرا ہے ؟
کسے کیا خبر ہے ! عجب ڈاکیہ ہے!
نظر ہر کسی سے الجہتی ہے اس کی ،
تکلم سے عاری تبسم سے عاری ،
بہت خون آ شام نظریں ہیں اس کی،
"نگاہیں ملیں تو بدن خوف کی سرد لہروں سے جل کر بھڑکنے لگے !"
نہیں ہے کوئی اسلحہ پاس اس کے ،
مگر اس کی گمنام چٹھی کے ڈر سے لہو خشک سب کا !
دریچاؤ در کو نگاہ - معیّن سے اپنی کبھی بھانپتا ہے تو لگتا ہے شاید ،
" کوئی سرو ئیر ہے ، تجاوز زدہ ان مکانوں کو ڈھانے،
انہیں توڑ کر پھر دوبارہ بنانے ، یا بجلی کے کنڈے ہٹانے ،
کہیں سے ہے آیا !
سبھی لوگ ڈرتے ہیں اس سے کہیں یہ انھیں ہی نہ گمنام چٹھی تھما دے !
" کہیں کوئی مضمون "ہارر " کا لکھ کر ، ہمارا پتہ اس پہ تحریر کر کے ،
ہمیں ہی نہ آخر کو چٹھی تھما دے -"
سبھی خوف سے اس کے سہمے ہوئے ہیں !
شکایات بھی اس کی کریں کس سے جا کر ؟
کسی بھی حکومت کا نہ یہ ملازم،
کسی شہر کا بھی یہ شہری نہیں ہے،
یہ کوئی نہیں ہے ، مگر قریہ قریہ ،
عجب ایک بینام چٹھی لئے یہ سدا گھومتا ہے !
کہا ایک عورت نے ، " قل پڑھ کے پھونکو،
کہ شاید کہیں یہ موا ٹل ہی جاۓ -"
کلام - مبارک کی آیت سے شاید
بلا ٹل ہی جائے - مگر اس موے پر اثر کچھ نہیں ہے-
نگاہ - معیّن سے اپنی ، دریچاؤ در کو کھڑا بھانپتا ہے -
وہ چٹھی ابھی بھی ہے ہاتھوں میں اس کے ،
خبر کچھ نہیں ہے کہ کس کو ملے گی!
خالد راوت
عجب ڈاکیہ ہے !
عجب ایک گمنام چٹھی سنبھالے ،
سڑک در سڑک مثل- پُرزاۓ کاغذ سدا گھومتا ہے ،
یہ چٹھی کے جس پہ اتا نہ پتہ ہے،
نہ مضمون کوئی ، نہ اسم - مبارک ،
کسے کھوجتا ہے؟
فرستادہ کس کا ؟ ہے کس کا ملازم ؟
جہنم سے آیا فرشتہ ہے کوئی ؟
یا جنات کا یہ کوئی ماجرا ہے ؟
کسے کیا خبر ہے ! عجب ڈاکیہ ہے!
نظر ہر کسی سے الجہتی ہے اس کی ،
تکلم سے عاری تبسم سے عاری ،
بہت خون آ شام نظریں ہیں اس کی،
"نگاہیں ملیں تو بدن خوف کی سرد لہروں سے جل کر بھڑکنے لگے !"
نہیں ہے کوئی اسلحہ پاس اس کے ،
مگر اس کی گمنام چٹھی کے ڈر سے لہو خشک سب کا !
دریچاؤ در کو نگاہ - معیّن سے اپنی کبھی بھانپتا ہے تو لگتا ہے شاید ،
" کوئی سرو ئیر ہے ، تجاوز زدہ ان مکانوں کو ڈھانے،
انہیں توڑ کر پھر دوبارہ بنانے ، یا بجلی کے کنڈے ہٹانے ،
کہیں سے ہے آیا !
سبھی لوگ ڈرتے ہیں اس سے کہیں یہ انھیں ہی نہ گمنام چٹھی تھما دے !
" کہیں کوئی مضمون "ہارر " کا لکھ کر ، ہمارا پتہ اس پہ تحریر کر کے ،
ہمیں ہی نہ آخر کو چٹھی تھما دے -"
سبھی خوف سے اس کے سہمے ہوئے ہیں !
شکایات بھی اس کی کریں کس سے جا کر ؟
کسی بھی حکومت کا نہ یہ ملازم،
کسی شہر کا بھی یہ شہری نہیں ہے،
یہ کوئی نہیں ہے ، مگر قریہ قریہ ،
عجب ایک بینام چٹھی لئے یہ سدا گھومتا ہے !
کہا ایک عورت نے ، " قل پڑھ کے پھونکو،
کہ شاید کہیں یہ موا ٹل ہی جاۓ -"
کلام - مبارک کی آیت سے شاید
بلا ٹل ہی جائے - مگر اس موے پر اثر کچھ نہیں ہے-
نگاہ - معیّن سے اپنی ، دریچاؤ در کو کھڑا بھانپتا ہے -
وہ چٹھی ابھی بھی ہے ہاتھوں میں اس کے ،
خبر کچھ نہیں ہے کہ کس کو ملے گی!
خالد راوت